راولاکوٹ (نمائندہ خصوصی ) جموں وکشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن نے22ا کتوبر کو تقسیم کشمیر ،گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے خلاف تحریک کا اعلان کرتے ہوئے ــ’’نیشنل یونٹی مارچ‘ لائن آف کنڑول تتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ، لانگ مارچ کا مقصد قابض قوتوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ ہم کسی بھی تقسیم کے ایجنڈے اور سرحد کو تسلیم نہیں کریں گئے،
تحریک کودوسرے مرحلہ میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے تمام اضلاع، تحصیلوں اور گائوںمیں ’’عوامی بیداری مہم‘‘کا آغاز کیا جائے گا، جس میں ہر گائوں میں کیمپ لگائے جائیں گے اس دوران اعلی سطحی تنظیمی وفد گلگت بلتستان کا دورہ کرے گااور وہاں کی سیاسی ، سماجی وکلاء طلبہ تنظیموں کے ساتھ ملاقاتیں کے ذریعے قومی بیانیہ کی تشکیل کی راہ ہموار کی جائے گی۔ تنظیم اپنے اس موقف کو دہراتی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی تمام منتظم اکائیاں ایک وحد ت کے اجزاء ہیں اور ان کا مستقبل بھی اجتماعی مستقبل سے جڑا ہے ان خیالات کا اظہار جموں وکشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر سرار فاران مشتاق نے دیگر عہدیداران کے ہمراہ غازی ملت پریس کلب راولاکوٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہریاست جموں کشمیر اپنی تاریخ کے بد ترین قومی بحران کا شکار ہو چکی ہے ،05 اگست 2019 کو بھارتی فسطائی ریاست کی طرف سے جبری طور پر ریاست کے ایک بڑے حصے کویونین ٹیریٹری میں ظم کیے جانے کے اقدام سے لے کر گزشتہ دنوں پاکستان کی طرف سے گلگت بلتستان کو جبری صوبہ بنانے کے متعلق پالیسی بیانات اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ دونو ںقابض استعماری ریاستیں ریاست جموں کشمیر کی مستقل تقسیم کے ایجنڈے پر متفق ہیں ۔علاقائی سطع پر سامنے آنے والے سیاسی سماجی اور اقتصادی حالات بالخصوص چین کے ابھرتے ہوئے کردار نے مسلہ ریاست جموں کشمیر کو ایک مختلف معروض میں داخل کر دیا ہے ،مستند تاریخی دستاویزات کی تحقیق اور مختلف ادوار میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مسلہ کشمیر کے متعلق ہونے والی سفارتی بات چیت سے یہ حقیقت مکمل طور پر واضع ہو جاتی ہے کہ دونوں قابض ممالک ابتداء سے ہی ریاست جموں کشمیر کی مستقل تقسیم کے قائل رہے ہیں ، البتہ اختلاف اس تقسیم کی نوعیت پر رہا ہے،دوسری طرف ریاست جموں کشمیر کی عوام کو رائے شماری اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت دئے جانے کے نعرے کے ذریعے بے وقوف بنایا جاتا رہا ہے، ریاست جموں کشمیر کی دونوںمقبوضہ اکائیوں کا مقامی حکمران طبقہ 73 سال سے اقتدار کے حصول اور اسے محفوظ بنانے کی خاطر استعماری طاقتوں کے آلہ کار کا کردارا ادا کرتا رہا ہے ۔جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن روز اول سے ہی اس نقطہ نظر کی حامل رہی ہے کہ ریاست جموں کشمیر کی آزادی عوامی انقلاب کے بغیر ممکن نہیں، خطے کا بالادست طبقہ ، قابض قوتو ں کی سہولت کاری کے علاوہ کسی بھی طرح کا قومی کردار ادا کرنے کی تاریخی صلاحیت سے عاری ہے ۔بھارت اپنے زیر قبضہ ریاستی اکائی میں گزشتہ ایک سال سے بدترین فو جی جبر مسلط کیے ہوئے ہے، سرچ آپریشنز کے نام پر ائے روز کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا جا رہا ہے ، آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لئے ڈومیسائل قانون میں ترمیم کرتے ہوئے لاکھوں بھارتی شہریوںکو ریاست میں آباد کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے زیر قبضہ کشمیری نسل کشی کے خطرے سے دو چار ہیں، جبکہ ریاست جموں و کشمیر کی پاکستانی مقبوضہ اکائی میں سیاسی اشرافیہ الیکشن، سیاست کے گھناونے کھیل میں مصروف ہے ۔ ایسے میں پاکستان کی طرف سے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے حوالے سے پالیسی بیانات واضح ثبوت ہیں کے ریاست کی مستقل تقسیم اور لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد بنائے جانے کے منصوبہ پر عمل در آمد کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس قومی سیاسی معروض میں تنظیم نے ’’تحریک وحدت ریاست‘‘چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس تحریک کو مرحلہ وار طریقہ سے آگے بڑھایا جائے گا۔ پہلے مرحلہ میں 22اکتوبر کو لائن آف کنٹرول تیتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ کی جانب ـ’’National Unity March‘‘ کیا جائے گا، جس کا مقصد 22اکتوبر 1947ء کے غیر ملکی حملہ اور اس کے نتیجہ میں تقسیم ریاست کے آغاز اور سیز فائر لائن (لائن آف کنٹرول ) جیسی خونیں لکیر کھینچے جانے کے خلاف احتجاج کرنا اور قابض قوتوں کو واضح پیغام دینا ہے کہ ہم ایسی کسی بھی تقسیم اور سرحد کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ اس مارچ کا دوسرا مقصد لائن آف کنٹرول پر جاری دو طرفہ گولہ باری کی نتیجہ میں ہونے والے دو طرفہ جانی و مالی نقصان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا اور عالمی برادری کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلانا ہے۔ مارچ کا مقصد قومی ایکتا و جڑت کے پیغام کو تمام اکائیوں تک پہنچانا اور تقسیم کی ہر شکل اور منصوبہ کو بے نقاب کرنا ہے۔،نیشنل یونٹی مارچ کا مقصد گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے حوالے سے پاکستانی ریاست کی سازشوں کو عوام کے سامنے لانا ہے، تنظیم گلگت بلتستان کے حوالہ سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کرتے ہوئے مقامی با اختیار حکومت قائم کی جائے اور گلگت بلتستان کے آزادی پسندوں کی جانب سے گزشتہ دنوں جاری کردہ موقف کی حمایت کرتی ہے کہ آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کی با اختیار حکومتوں پر مشتمل مشترکہ سینٹ کا قیام عمل میں لایا جائے۔
کوئی تبصرے نہیں
ایک تبصرہ شائع کریں